Allah and Muhammad SAWS in Qasim Dreams

Mashriq e Wusta Ki Barbadi Aur Emaraat e Islamia Ka Qiyam


مشرق وسطی کی بربادی اور عمارت اسلامیہ کا قیام۔ 31 مارچ 2018 میں اِس خواب میں ایک گھر میں ہوتا ہوں جو کہ مشرق وسطی میں ہوتا ہے۔ وہ گھر بہت بڑا ہوتا ہے مگر پُرانے طرز پہ بنا ہوتا ہے۔ اس گھر میں کافی کمرے ہوتے ہیں اور دیواروں پر سبز رنگ ہوتا ہے۔ اس گھر کے کمروں میں لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوں، میں اِس گھر میں کیوں ہوں؟ خیر! میں گھر کو دیکھتا ہوں، ایک کمرے میں ایک کھڑکی ہوتی ہے، جو باہر کی جانب کھلتی ہے۔ قریب ہی ایک بچہ جو تقریبا 12 سال کا ہوتا ہے، اس کھڑکی سے باہر کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ میں بھی اس کھڑکی سے باہرکی جانب دیکھتا ہوں۔ باہر تھوڑے فاصلے پر مجھے ایک اور گھر نظر آتا ہے۔ وہ گھر جدید طرز پہ بنا ہوتا ہے اور ایک بڑی عمارت کی طرح لگتا ہے۔ وہاں کافی لوگ ہوتے ہیں۔ وہاں ایک آدمی کے پاس ایک سرخ رنگ کی کار ہوتی ہے۔ وہ اس کار کو چلا رہا ہوتا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ آدمی اس گھر کا سربراہ ہے۔ وہ آدمی اس کار سے ڈرفٹنگ (drifting) اور سٹنٹ (stunt)کر رہا ہوتا ہے۔ اردگرد لوگ یہ دیکھ کر اسے داد دے رہے ہوتے ہیں۔ وہ آدمی واقعی کافی اچھے سٹنٹ کر رہا ہوتا ہے۔ پِھرمیں وہاں سے ایک دوسرے کمرے میں جانے لگتا ہوں تو وہ بچہ جو قریب کھڑا ہوتا ہے، دوڑتا ہوا میرے پاس آتا ہے۔ وہ مجھے سلام کرتا ہے اور اپنا نام بتاتا ہے۔ میں اس کو جواب دیتا ہوں۔ وہ مجھے کہتا ہے آپ نے اس آدمی کی ڈرفٹنگ دیکھی ہے، کتنی اچھی ڈرفٹنگ کر رہا ہے۔ میں کہتا ہوں ہاں! میں نے دیکھی ہے، یہ بڑے لوگوں کا کام ہے۔ اس کے پاس کار اور جگہ ہے، اسلیئے سٹنٹ کر رہا ہے۔ پِھر وہ بچہ مجھے کہتا ہے، پلیز! آپ میرے ساتھ کرکٹ کھیلیں، میرے پاس بیٹ بال ہے۔ میں کہتا ہوں، ہاں ضرور! کیوں نہیں۔ ساتھ ہی اس کی امی اسے دوسرے کمرے سے آواز دیتی ہیں اور کہتی ہے کہ پہلے اسکول کا کام کر لو، پِھر کھیلنا۔ تو وہ بچہ مجھے کہتا ہے، آپ یہیں رکیں، میں اسکول کا کام کر کے جلدی سے آتا ہوں اور بیٹ بال بھی لیتا آؤں گا۔ میں کہتا ہوں، ٹھیک ہے، میں یہیں ہوں۔ پِھر مجھے پتا نہیں کیا خیال آتا ہے، میں دوبارہ کھڑکی کی جانب بڑھتا ہوں اور اس کار والے آدمی کو دیکھنے لگتا ہوں۔ کچھ ہی دیر بعد ایک اور آدمی بھی کھڑکی کے پاس آ جاتا ہے اور کار والے کے سٹنٹ دیکھنے لگتا ہے۔
میں سامنے والے گھر کو دیکھتا ہوں، وہ کافی مضبوط ہوتا ہے اور بہت اچھا ہوتا ہے۔ وہ کار والا آدمی آوازیں بھی نکالتا ہے کہ دیکھو! میں کیسے سٹنٹ کر رہا ہوں۔ پِھر اچانک اس سامنے والے گھر کی چہار دیواری کی بنیادوں میں سے ایک عجیب سی آواز آتی ہے اور زمین دھنسنا شروع ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی گھر کی چہاردیواری نیچے گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر میں اس آدمی کو جو میرے پاس کھڑا ہوتا ہے، کہتا ہوں، وہ دیکھو! اس جگہ سے زمین دھنس گئی ہے اور دیوار بھی گر رہی ہے۔ وہ کہتا ہے، ہاں! یہ سب کیسے ہوا؟ یہ تو بہت مضبوط گھر تھا۔ میں کہتا ہوں، ہاں! مگر کہیں اس گھر کی دیواریں ہمارے گھر پہ نہ گر جائیں اور اسے نقصان نہ ہو جائے۔ وہ کہتا ہے، نہیں! ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ گھر تو کافی دور ہے اور اگر اس گھر کی دیواریں گر بھی جائیں تو یہاں تک ان کا ملبہ نہیں پہنچ سکتا۔ پِھر میں دیکھتا ہوں کہ اس گھر کے آگے سے زمین دھنس جاتی ہے اور ایک طرف کی کافی زیادہ دیوار گر جاتی ہے۔ زمین بڑی تیزی سے دھنسنا شروع ہو جاتی ہے، مگر اس کے اردگرد کے لوگ کوئی پروا نہیں کرتے اور کار والے آدمی کے سٹنٹ دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ آدمی جو کار چلا رہا ہے، اس بات کی پرواہ کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں، اِس گھر کی زمین دھنس رہی ہے اور ان لوگوں کو پتا ہی نہیں چل رہا یا ان لوگوں کو اس کی کوئی پروا نہیں اور اِس آدمی کو داد دینے میں مصروف ہیں۔ پِھر پتا نہیں اُس آدمی کو کیا خیال آتا ہے، وہ اپنی کار پارکنگ کی جانب موڑتا ہے۔ زمین تیزی سے دھنستی چلی جا رہی ہوتی ہے اور جو لوگ داد دے رہے ہوتے ہیں، ان میں سے بھی کچھ زمین میں دھنس جاتے ہیں۔ باقی لوگ ان کو دھنستا دیکھ کر چیخنے لگتے ہیں۔ زمین دھنسنے سے اور دیواروں کے گرنے سے مٹی اور دُھول اُڑنے لگتی ہے۔ جیسے ہی وہ آدمی پارکنگ کے قریب پہنچتا ہے اور کار پارک کرنے لگتا ہے، وہاں سے زمین دھنس جاتی ہے اور وہ آدمی کار سمیت زمین میں بہت گہرائی تک دھنس جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ میں ساتھ والے آدمی سے پوچھتا ہوں، کیا یہ آدمی بچ گیا ہو گا؟ وہ کہتا ہے، نہیں! وہ مر گیا ہو گا۔ میں کہتا ہوں، ہاں اتنی مٹّی میں دب کر وہ سانس نہیں لے پا رہا ہو گا اوردم گھٹنے سے مر گیا ہو گا۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر میں کہتا ہوں، مجھے باہر جا کر دیکھنا ہو گا اور اُن لوگوں کو بتانا ہو گا کہ وہاں سے نکلیں کیونکہ وہ گھر گر رہا ہے۔
میرے باہر جانے تک زمین مزید تیزی سے دھنسنا شروع ہو جاتی ہے اور اس گھر میں کافی تباہی مچا چکی ہوتی ہے۔ پِھر زمین دھنستی ہوئی اس گھر کے قریب پہنچ جاتی ہے جہاں میں ہوتا ہوں۔ اس گھر کی ایک دیوار کے نیچے سے بھی زمین دھنس جاتی ہے اور دیوار گر جاتی ہے۔ پِھراس گھر کا ایک کمرہ بھی گر جاتا ہے اور مٹی اور دُھول اُڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ میں بہت پریشان ہوتا ہوں کہ یہ مصیبت تو یہاں بھی آ گئی ہے۔ اب پتا نہیں کیا ہوگا۔ اچانک زمین اس گھر کے مرکزی دروازے کے پاس آ کر رک جاتی ہے۔ یعنی زمین مرکزی دروازے تک ہی دھنستی ہے، مزید آگے نہیں دھنستی، جس کی وجہ سے اس گھر کے لوگ وہاں سے نکل سکتے ہیں۔ میں کہتا ہوں، اللہﷻ کا شکر ہے کہ زمین یہاں آ کر رک گئی۔ میں دھنسی ہوئی زمین کو دیکھتا ہوں, وہ اس سامنے والے گھر سے ایک جیسی چوڑائی میں سیدھی آ رہی ہوتی ہے۔ مجھے مٹی کے اندر لوہے کے بلیڈ کی طرح کے ٹکڑے نظر آتے ہیں اور ایک جیسے نشان ہوتے ہیں اور مٹی لائنوں میں کٹی ہوتی ہے، جیسے کوئی پوری منصوبہ بندی سے سے چھپ کر ان گھروں کو گرا رہا ہو۔ پِھر میں کہتا ہوں، مجھے جلدی کرنا ہو گی۔ میں جلدی سے اندر کی طرف بھاگتا ہوں اور شور مچاتا ہوں کہ جلدی سے اِس گھر سے باہر نکلو، کیونکہ اِس گھر کی زمین دھنسنے والی ہے۔ کچھ لوگ میری بات سنتے ہی فورا اپنا سامان اٹھا کر باہر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پِھر مجھے خیال آتا ہے کہ میرا بھی کچھ سامان ہے۔ میں جلدی سے اپنا سامان اٹھانے کے لیے ایک کمرے میں جاتا ہوں۔ سامان کو دیکھ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سامان مجھے اللہﷻ کی طرف سے ملا ہے۔ سامان اٹھا تے ہی مجھے اُس بچے کا خیال آتا ہے۔ میں اُس کو ایک کمرے سے ڈھونڈ لیتا ہوں اور کہتا ہوں، جلدی نکلو! یہ گھر گرنے والا ہے۔ وہ اور اُس کے گھر والے اپنا ضروری سامان اٹھا کر باہر کی طرف بھاگتے ہیں۔ زمین اسی دورازے پہ رکی ہوتی ہے مگر گھر کے دوسری جانب سے زمین دھنستی جا رہی ہوتی ہے اور اطراف میں تباہی پھیلتی جاتی ہے۔ باہر نکل کر لوگ مجھے کہتے ہیں، اب ہم کیا کریں، کہاں جائیں؟ میں کہتا ہوں، پریشان مت ہوں اور مشرق کی جانب اشارہ کر کے کہتا ہوں، اِس طرف کو جائیں، یہاں آگے ایک چھوٹا سا دریا آئے گا، اس کو پار کر کے آپ کو ایک اور گھر نظر آئے گا۔ آپ اُس گھر میں چلے جائیں۔
وہ لوگ اس طرف چل پڑتے ہیں۔ میں نے بھی اپنا سامان اٹھایا ہوتا ہے۔ میں سامان کو کسی جگہ نہیں رکھتا، بلکہ سوچتا ہوں کہ اگر یہ کسی جگہ رکھ دیا تو کہیں میں بھول ہی نہ جاؤں، یا سامان زمین میں دھنس نہ جائے۔ اِس لیے میں سامان کو اپنے ساتھ ہی رکھتا ہوں۔ میں دوبارہ گھر کے اندر جا کر کچھ اور لوگوں کو باہر لاتا ہوں۔ اتنی دیر میں وہ پہلے لوگ واپس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم دریا کو کیسے پار کریں؟ میں ان کو اپنے ساتھ لے کر جاتا ہوں۔ وہ دریا ایک جگہ پہ کم گہرا ہوتا ہے۔ میں انھیں کہتا ہوں کہ وہاں سے دریا پار کریں۔ ہم دریا پار کر کے آگے جاتے ہیں تو وہاں ایک چھوٹا، پُرانا اور کمزور سا گھر ہوتا ہے۔ اس کو دیکھ کر میں کہتا ہوں، یہ تو وہی گھر ہے جہاں میں پیدا ہوا تھا۔ میں لوگوں سے کہتا ہوں، اِس گھر میں پناہ لیں، اللہﷻ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ لوگ اس گھر میں چلے جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں، ہمیں اِس گھر کو مضبوط کرنا ہو گا اور زمین کے اندر سے بھی اس کی حفاظت کرنا ہوگی تاکہ وہ مصیبت یہاں نہ آ جائے اور اِس گھر کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اللہﷻ ہماری ضرور مدد کرے گا۔ پھر میں واپس جاتا ہوں، وہاں کچھ اور گھر بھی ہوتے ہیں۔ میں وہاں سے اور اُن دو بڑے گھروں سے لوگوں کو نکل کر اسی گھر کی طرف جانے کا کہتا ہوں۔ وہ لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اُس پرانے اور چھوٹے گھر میں جانا شروع کر دیتے ہیں۔
یہاں خواب کے سین بہت تیزی سے آگے بڑھتے ہیں۔ مجھے کچھ یاد نہیں رہتا کہ اِس دوران کیا ہوا۔ پھر جب سین دوبارہ نارمل ہوتا ہے، تو میں گھر کے دروازے کے سامنے ہوتا ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مصیبت ٹل چکی ہے اور جو لوگ بچ گے تھے، وہ سب اِس گھر میں آ چکے ہیں۔ میں اس گھر کے اندر جاتا ہوں تو وہ گھر بالکل بدل چکا ہوتا ہے۔ میں بہت حیران ہوتا ہوں اور کہتا ہوں، یہ تو وہی گھر ہے جو حضرت محمدﷺ نے بنایا تھا اور میں اپنے خوابوں میں اسی گھر کی تلاش میں تھا۔ اللہﷻ نے اپنی رحمت سے یہ گھر ہمیں واپس دے دیا ہے۔ میں بہت خوش ہوتا ہوں۔ وہ گھر اُن دو بڑے گھروں سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ میں اس گھر میں گھوم پھر کر دیکھتا ہوں۔ ہر جگہ امن اور سکون ہوتا ہے۔ میں اس گھر کے ایک بڑے سے کمرے میں جاتا ہوں تو وہاں بہت سے لوگ گھل مل کر بیٹھے ہوتے ہیں اور آپس میں باتیں کر رہے ہوتے ہیں،یعنی مختلف رسم و رواج اور زبانیں بولنے والےتمام دنیا کے مسلمان اس گھر میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ میں اُن کو دیکھ کر حیران ہوتا ہوں اور کہتا ہوں، جب تک آفت نہیں آئی تھی، تو یہ لوگ ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اب یہ سب ایک جگہ اکٹھے ہیں اور ایک دوسرے سے ایسے باتیں کر رہے ہیں جیسے سگے بھائی ہوں۔ وہ ایک دوسرے کی دل جوئی کر رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے انتہائی ادب اور احترام سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر ایک نوجوان کمرے میں آتا ہے۔ وہ مجھے جانا پہچانا لگتا ہے۔ میں کہتا ہوں، ایسا لگتا ہے کہ میں نے اس کو پہلے کہیں دیکھا ہے۔ پِھر میں کہتا ہوں، ہاں! اِس کی شکل اُس بچے سے کتنی ملتی ہے جو مجھے مشرق وسطی والے گھر میں ملا تھا۔ اتنی دیر میں وہ نوجوان بھی مجھے دیکھ لیتا ہے اور مجھ سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ میں اس کو کہتا ہوں، میں ایک بچے سے ملا تھا، تمہاری شکل اس بچے سے بہت ملتی ہے، تمہیں دیکھ کر مجھے وہ بچہ یاد آ گیا۔ وہ کہتا ہے، میں وہی بچہ ہوں۔ میں حیران ہوتا ہوں، پِھر میں اس کا نام لے کر کہتا ہوں، کیا تم وہی ہو؟ وہ کہتا ہے، ہاں! میں وہی ہوں؟ میں کہتا ہوں، تم تو کافی بڑے ہو گئے ہو۔ وہ کہتا ہے، ہاں! میں اب بڑا ہو گیا ہوں، آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں تھوڑی دیر اس سے باتیں کرتا ہوں۔ یہ سب دیکھ کر میں گم سم ہو جاتا ہوں۔ پِھر میں اسی کمرے میں ایک جگہ بیٹھ جاتا ہوں (میں نے اپنا سامان ابھی تک سنبھال کر رکھا ہوتا ہے اور مضبوطی سے اٹھایا ہوتا ہے)۔ میں کہتا ہوں، اِس افراتفری میں کئی سال گزر گے اور مجھے پتہ بھی نہیں چلا۔ یہ نوجوان اس وقت بچہ تھا۔ اتنے سالوں کے بعد مجھے فرصت ملی اور امن و سکون والا وقت دیکھنے کو ملا ہے۔ اُف! میرے اللہ۔ پِھر میں اس گھر کی دیواروں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ گھر بہت مضبوط اور ناقابل شکست ہے اور گھر کی دیواروں اور چھت سے اللہﷻ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہو رہی ہوں۔ پھر میں کہتا ہوں، اب زیادہ وقت نہیں رہا، بہت جلد ہم سب کی ملاقات اللہ رب العالمین سے ہونے والی ہے۔ اور یہ خواب وہیں ختم ہو جاتا ہے۔

Leave a Reply